ہمارا سفر 1974 میں ایک مشترکہ خواب کے ساتھ شروع ہوا۔ پاکستان اور ابوظہبی نے مل کر ایک ایسی اقتصادی شراکت قائم کی جس کا نام پاک عرب ریفائنری لمیٹڈ (PARCO) رکھا گیا۔ اس مشترکہ منصوبے میں حکومتِ پاکستان کا ساٹھ فیصد اور ابوظہبی کی جانب سے مبادلہ انویسٹمنٹ کمپنی کے ذریعے چالیس فیصد حصہ شامل تھا۔ ابتدا میں یہ صرف ایک پائپ لائن کمپنی تھی، مگر اپنی دوراندیشی، خود سرمایہ کاری اور مرحلہ وار ترقی کی حکمت عملی کے باعث چند دہائیوں میں ہی PARCO پاکستان کی توانائی کے منظرنامے میں ایک ناگزیر قوت بن گئی۔کراچی سے مچیکی (شیخوپورہ کے قریب) تک پھیلے دو ہزار کلومیٹر سے زائد پائپ لائنوں کا جال، جس میں اس کا ذیلی ادارہ پیپکو (PAPCO) بھی شامل ہے، مختلف قسم کی پٹرولیم مصنوعات کو ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچانے کا محفوظ ترین اور ماحول دوست ذریعہ ہے۔
سن 2000 میں PARCO نے اپنے سفر کا ایک اور سنگِ میل عبور کیا اور مڈ‑کنٹری ریفائنری قائم کی، جو روزانہ ایک لاکھ بیس ہزار بیرل خام تیل صاف کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ADNOC اور ARAMCO کے ساتھ طویل المدتی معاہدوں کے تحت درمیانے درجے کا خام تیل پراسیس کر کے یہ ریفائنری اعلیٰ معیار کی مصنوعات تیار کرتی ہے—ڈیزل، پٹرول، جیٹ ایندھن، ایل پی جی، مٹی کا تیل، فرنس آئل، سلفر اور سڑکوں کے لیے مخصوص اسفالٹ۔ یہ پاکستان کی سب سے جدید ریفائنری ہے، جو پیداواری صلاحیت کے ساتھ ماحول کے تحفظ کو بھی اولین اہمیت دیتی ہے۔
اپنی جدید ریفائنری، مضبوط پائپ لائن نیٹ ورک، ایک اعشاریہ پانچ ملین ٹن سے زائد ذخیرہ کرنے کی گنجائش اور پورے ملک میں جاری مارکیٹنگ سرگرمیوں کے ذریعے PARCO نہ صرف پاکستان کی اقتصادی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے بلکہ ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ کی بچت بھی یقینی بنا رہی ہے۔اہلیت کے جس مقام پر PARCO آج موجود ہے، وہ اس کی اعلیٰ عملی کارکردگی، بہترین حکمت عملی اور توانائی کے ہر شعبے میں مسلسل سرمایہ کاری کا ثمر ہے۔
پاکستان اور ابوظہبی کی ریاست کے درمیان سن 1974 میں ایک باہمی اقتصادی شراکت داری کے تحت پاک عرب ریفائنری لمیٹڈ (PARCO) کا قیام عمل میں آیا۔ یہ ادارہ ایک 60:40 کی شراکت پر قائم مشترکہ منصوبہ ہے، جس میں حکومتِ پاکستان کا 60 فیصد اور ابوظہبی کی جانب سے مبادلہ انویسٹمنٹ کمپنی کے ذریعے 40 فیصد حصہ ہے۔
PARCO نے اپنے سفر کا آغاز ایک تیل کی پائپ لائن کمپنی کے طور پر کیا، تاہم وقت کے ساتھ ادارے نے اپنی سرمایہ کاری خود فراہم کر کے، اور ایک مرحلہ وار ترقیاتی حکمتِ عملی پر عمل کرتے ہوئے خود کو پاکستان کے سب سے بڑے توانائی اداروں میں شامل کر لیا۔ آج PARCO پاکستان کی تیل اور گیس کی سپلائی چین کا ایک ناگزیر حصہ بن چکا ہے۔
یہ ادارہ کراچی سے لے کر شیخوپورہ کے قریب مچیکی تک، دو ہزار کلومیٹر سے زائد طویل ملکی سطح پر پھیلے پائپ لائن نیٹ ورک کا انتظام سنبھالتا ہے، جس میں اس کا ذیلی ادارہ پیپکو (PAPCO) بھی شامل ہے۔
اس نیٹ ورک کے ذریعے متعدد اقسام کی پٹرولیم مصنوعات منتقل کی جاتی ہیں، اور یہ طریقہ نقل و حمل کے لحاظ سے تیز ترین، محفوظ ترین اور ماحول دوست تصور کیا جاتا ہے۔
سن 2000 میں PARCO نے مڈ-کنٹری ریفائنری (MCR) قائم کی، جو یومیہ ایک لاکھ بیس ہزار بیرل تیل صاف کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یہ ریفائنری ADNOC اور ARAMCO سے طویل المدتی معاہدوں کے تحت حاصل کردہ درمیانے درجے کے خام تیل کو پراسیس کرتی ہے، اور اعلیٰ معیار کی پٹرولیم مصنوعات تیار کرتی ہے، جن میں ڈیزل، پٹرول، جیٹ ایندھن، ایل پی جی، مٹی کا تیل، فرنس آئل، سلفر اور سڑکوں کے لیے مخصوص اسفالٹ شامل ہیں۔
یہ پاکستان کی جدید ترین ریفائنری ہے جو نہ صرف پیداوار بلکہ ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے بھی ایک فعال سوچ رکھتی ہے۔
اپنی جدید ریفائنری، پائپ لائن نیٹ ورک، 1.5 ملین ٹن سے زائد ذخیرہ کرنے کی گنجائش، اور مختلف علاقوں میں جاری مارکیٹنگ سرگرمیوں کے ذریعے PARCO پاکستان کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ ملک کے لیے کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ بھی بچا رہا ہے۔
یہ مقام ادارے نے اپنی اعلیٰ عملی کارکردگی، توسیعی حکمتِ عملی اور توانائی کے درمیانی و نچلے شعبے میں نئی سرمایہ کاری کے تسلسل کے ذریعے حاصل کیا ہے۔
پاک-عرب ریفائنری لمیٹڈ کو 1.5 ارب روپے کے مجاز سرمائے کے ساتھ قائم کیا گیا۔ لاہور میں قیام اور کراچی میں آپریشنز کے آغاز سے پارکو نے ایک اسٹریٹجک سنگِ میل عبور کیا، جس سے پاکستان کا درآمدی ایندھن پر انحصار کم ہوا اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ایک اہم اقتصادی شراکت داری کو فروغ ملا۔
کراچی محمودکوٹ (کے ایم کے) پائپ لائن کی تعمیر۔ یہ ایک زیرِ زمین پائپ لائن ہے جو کورنگی، کراچی سے لے کر محمودکوٹ تک 864 کلومیٹر کے فاصلے تک پھیلی ہوئی ہے۔
پاکستان میں تیل کی طلب میں نمایاں اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں کیماڑی، جو تیل کی وصولی کی سب سے بڑی پورٹ ہے، بہت زیادہ مصروف ہوگئی۔ بحری جہاز سمندر میں کھڑے ہفتوں تک انتظار کرتے رہے، جس سے بھاری ڈیمریج چارجز عائد ہوئے اور کاروباری سرگرمیوں میں وسیع پیمانے پر خلل پیدا ہوا۔
اس مسئلے کے حل کے لیے، پارکو نے ڈی بوٹل نیکنگ کیماڑی فیسلٹی (DKF) پروجیکٹ کا آغاز کیا، جو اس ہجوم کو کرنے کے لیے ایک جدید حکمت عملی تھی۔ اس پروجیکٹ میں ایک نئی پائپ لائن کی تعمیر کی گئی جو تیل لے جانے والے جہازوں کو براہِ راست کورنگی کے ٹینک فارم سے جوڑتی تھی، اس طرح پُرہجوم کیماڑی پورٹ کو بائی پاس کیا گیا۔ یہ اسٹریٹجک راہ داری نہ صرف پورٹ کی رکاوٹوں کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوئی بلکہ لاجسٹک کی لاگت میں کمی اور مجموعی سپلائی چین کی کارکردگی کی بہتری نے پورے پراسس کی اثرانگیزی کو بہتر بنایا۔
1992ء میں، پارکو نے اپنی 864 کلومیٹر طویل کراچی تا محمودکوٹ (KMK) پائپ لائن کی کارکردگی میں نمایاں اضافہ کیا۔ ابتدا میں یہ پائپ لائن صرف ایک وسطی پمپنگ اسٹیشن سے منسلک تھی اور اس کی صلاحیت سالانہ 2.9 ملین ٹن تھی، لیکن فلو امپروومنٹ ٹیکنالوجی کے نفاذ نے اس صلاحیت کو بڑھا کر 4.5 ملین ٹن سالانہ کر دیا۔ اس جدت نے نقل و حمل کی رفتار اور آپریشنل کارکردگی کو بہتر بنایا ، جس سے پارکو کو توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کو بہتر طور پر پورا کرنے میں مدد ملی۔
1992ء میں ہونے والی تکنیکی پیش رفت کو بروئے کار لاتے ہوئے، پارکو نے 1994ء میں سندھ کے بوبک اور پنجاب کے فضل پور میں دو نئے وسطی پمپنگ اسٹیشنز کی تکمیل کے ذریعے اپنی آپریشنل استعداد کو مزید بڑھایا۔ یہ اسٹریٹجک اضافہ نہ صرف پائپ لائن کے موجودہ انفراسٹرکچر کا بھرپور استعمال کرتا ہے بلکہ اس کی صلاحیتوں کو بھی بڑھاتا ہے۔ ان اسٹیشنز کی بدولت پائپ لائن کی سالانہ گنجائش فلو امپروومنٹس کے بغیر ہی 4.5 ملین ٹن تک پہنچ گئی، اور فلو امپروومنٹس کے ساتھ یہ 6.0 ملین ٹن تک ہو گئی۔ اس سے پارکو کو پاکستان کے شمالی علاقوں میں بڑھتی ہوئی پیٹرولیم کی طلب کو پورا کرنے میں مدد ملی، جو ملک بھر میں توانائی کی تقسیم کو بہتر بنانے کے جاری سفر میں ایک اہم قدم تھا۔
1995ء میں، مڈ-کنٹری ریفائنری کے سنگِ بنیاد کی تقریب ایک جدید سہولت کے آغاز کی علامت بنی جو توانائی کی پیداوار میں انقلاب لانے والی تھی۔ پاکستان کے قلب ، مظفرگڑھ میں اس اسٹریٹجک محل وقوع والی جدید ریفائنری نے ایک مضبوط اور کثیرجہتی آپریشن کی بنیاد رکھی، جو بلند طلب والی مصنوعات کی متنوع رینج پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اپنی جدید ٹیکنالوجی اور اسٹریٹجک محل وقوع کے ساتھ، مڈ-کنٹری ریفائنری نئی معیارات قائم کرنے کے لیے تیار تھی، جس سے اقتصادی ترقی اور صنعتی جدت کو فروغ ملا۔ اس شاندار منصوبے نے نہ صرف مقامی انفراسٹرکچر کو مضبوط کیا بلکہ توانائی کی حفاظت اور خود کفالت میں بھی اہم کردار ادا کیا، درآمدی ایندھن پر انحصار کو کم کیا اور علاقائی ترقی کو فروغ دیا۔ ریفائنری کا قیام توانائی کے شعبے میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا، جو ترقی اور پائیداری کے عزم کی کا عکاس ہے اور ریفائننگ ٹیکنالوجی اور عمل میں مستقبل کی پیش رفت کے لیے راہ ہموار کرتا ہے۔
پارکو نے 364 کلومیٹر طویل ایم ایف ایم پائپ لائن مکمل کر کے اپنی رسائی کو نمایاں طور پر بڑھایا۔ یہ پائپ لائن محمودکوٹ سے لے کر شیخوپورہ کے قریب ماچھیکے تک پھیلی ہوئی ہے، جس میں فیصل آباد ایک اہم وسطی مرکز کے طور پر کام کرتا ہے۔ ایم ایف ایم کو ابتدائی طور پر سالانہ 3 ملین ٹن کی گنجائش کے ساتھ تیار کیا گیا تھا، جسے بعد میں 7 ملین ٹن تک بڑھایا گیا، اور یہ ڈیزل اور پٹرول دونوں کی ترسیل کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اس پائپ لائن سے اہم مارکیٹوں، بالخصوص لاہور، کو ریفائنڈ مصنوعات کی ترسیل بہت بہتر ہوگئی۔ ایم ایف ایم پائپ لائن کے راستے کو مزید بہتر مؤثر کے لیے، پارکو نے 2002ء میں فیصل آباد میں ایک گینٹری سہولت کا افتتاح کیا۔ یہ اسٹریٹجک اضافہ فیصل آباد کے ارد گرد چھوٹی علاقائی مارکیٹوں میں بڑھتی ہوئی ایندھن کی طلب کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوا۔ گینٹری نے مصنوعات کی منتقلی کو ہموار کیا، اور پورے خطے میں مستحکم اور مؤثر سپلائی چین کو یقینی بنایا۔ اس نے پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے اور اپنے نیٹ ورک کو مضبوط بنانے میں پارکو کی اسٹریٹجک بصیرت کو اجاگر کیا۔
مڈ-کنٹری ریفائنری نے 4 (MCR) ستمبر سے کام کا اغاز کیا اور اپنی 100,000 بیرل یومیہ کی استعداد سے پاکستان کی ریفائننگ صلاحیت کو نمایاں طور پر بڑھا دیا۔ 886 ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والی اس ریفائنری سے ریفائننگ کی گنجائش سالانہ 4.5 ملین ٹن بڑھ گئی، اور اہم پیٹرولیم مصنوعات جیسے کہ ایل پی جی، جیٹ فیول، ڈیزل، ایچ او بی سی اور فرنس آئل تیار کیے گئے۔ شیڈول سے ایک ماہ پہلے اور بجٹ کے اندر مکمل ہونے والی MCR نے پارکو کے کارکردگی اور جدت کے عزم کو اجاگر کیا۔ ‘ڈیزل میکس’ یونٹ اور جدید کنٹرول سسٹمز جیسی جدید ٹیکنالوجی سے لیس اس ریفائنری نے نہ صرف آپریشنل کارکردگی کو بڑھایا بلکہ سخت ماحولیاتی معیار کی بھی پابندی کی۔
قومی سلامتی کو اسٹریٹجک طور پر مضبوط بناتے ہوئے، MCR نے درآمدی ایندھن پر انحصار کو کم کیا اور پاکستان بھر میں پیٹرولیم مصنوعات کی مؤثر ترسیل کو ممکن بنایا۔ اس ریفائنری سے منسلک ایک جدید رہائشی کمپلیکس بھی تیار کیا گیا تھا ، جس سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ پارکو اپنے ملازمین کی فلاح و بہبود پر توجہ دیتی ہے۔
MCR اس بات کی مظہر ہے کہ پاکستان بڑے اور تکنیکی اعتبار سے جدید منصوبوں کو کامیابی کے ساتھ مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو ملک کو توانائی کے شعبے میں خود انحصاری اور پائیدار ترقی کی جانب لے جا رہی ہے۔
پارکو نے ایک جوائنٹ وینچر کمپنی، پاک-عرب پائپ لائن کمپنی لمیٹڈ (PAPCO) کے قیام میں بھی معاونت کی، جس میں پارکو 51فیصد ایکویٹی شیئرز کی حامل تھی، جبکہ شیل پاکستان (26فیصد)، پاکستان اسٹیٹ آئل (12فیصد) اور کیل ٹیکس آئل پاکستان (11فیصد) دیگر شریک فریق تھے۔ اس اشتراک کا مقصد اسٹریٹجک اہمیت کی حامل وائٹ آئل پائپ لائن کا قیام عمل میں لایا گیا جس کی لاگت 480 ملین ڈالر تھی۔ 26 انچ قطر اور 786 کلومیٹر طویل یہ پائپ لائن کراچی سے محمودکوٹ تک ریفائنڈ پیٹرولیم مصنوعات کی ترسیل کے لیے تیار کی گئی تھی۔
ابتدا میں یہ پائپ لائن سالانہ 5 ملین ٹن کی استعداد رکھتی تھی، جبکہ ڈیزائن کے مطابق اس کی استعداد کو 12 ملین ٹن سالانہ تک بڑھایا جاسکتا ہے، جو پاکستان کی پیٹرولیم مصنوعات کی ترسیل کے انفراسٹرکچر میں نمایاں بہتری کی مظہر ہے۔ اس اشتراک نے نہ صرف منصوبے کے نفاذ میں پارکو کی قیادت کو اجاگر کیا بلکہ اس نے پائپ لائن کے مؤثر و محفوظ انتظام کے حوالے سے پارکو کے عزم کو نمایاں کیا، جس سے قومی توانائی کے تحفظ میں اس کے قائدانہ کردار کو مزید استحکام حاصل ہوا۔
پارکو نے ایس ایچ وی انرجی پاکستان (پرائیویٹ) لمیٹڈ کا حصول مکمل کیا، اور ایس ایچ وی کیلور ایشیا بی۔وی (نیدرلینڈز) کی جانب سے شیئرز کی فروخت کے بعد اس کے 100 فیصد شیئرز حاصل کرلیے۔ یہ کمپنی پاکستان کی سب سے بڑی ایل پی جی مارکیٹنگ اور تقسیم کاری کمپنی بن چکی تھی، جو ملک بھر میں تقسیم کاروں ( ڈسٹری بیوٹرز) اور صارفین کے نیٹ ورک کی حامل تھی، نیز اسے ایل پی جی کے صنعتی استعمالات میں مہارت حاصل تھی۔ ملک کے سب سے بڑے ایل پی جی سپلائر کو صفِ اول کی ایل پی جی مارکیٹنگ کمپنی کے ساتھ مشترک انتظام کے تحت ضم کر نے کے اس حصول سے ایسے اشتراکی فوائد حاصل کہوئےیے جن سے پاکستان بھر میں صارفین کو فراہم کی جانے والی خدمات میں نمایاں بہتری آئی۔ یہ اسٹریٹجک اقدام پارکو کی توسیع اور تنوع کی حکمتِ عملی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ حصول کے بعد کمپنی کا نام پارکو پرل گیس (پرائیویٹ) لمیٹڈ (PPGL) رکھا گیا۔
پارکو نے مڈ-کنٹری ریفائنری (ایم سی آر) کے احیا کا پروجیکٹ کامیابی کے ساتھ مکمل کیا، جس سے ایم سی آر کی پلانٹ پروسیسنگ کی صلاحیت 100,000 سے بڑھ کر 120,000 بیرل یومیہ تک پہنچ گئی۔ کمپنی نے اپنی ایندھن کے معیار کو بھی یورو III گیسولین اور یورو III ڈیزل میں اپ گریڈ کیا، اور ایک بار پھر پاکستان میں ماحول دوست مصنوعات متعارف کروانے میں خود کو ایک پیشرو اور نمایاں ادارے کے طور پر ثابت کیا۔
پارکو کی MFM اور پی اے پی سی او کی WOP پائپ لائنز کی ڈوئلائزیشن 2021ء میں مکمل ہوئی، جو دونوں کمپنیوں کے لیے ایک اور اہم منصوبہ تھا۔ اس اقدام سے موجودہ پائپ لائنز کی گنجائش کا مؤثر استعمال ممکن ہوا، اور اب یہ پائپ لائنز نہ صرف ڈیزل بلکہ پٹرول کی بھی ترسیل کر سکتی ہیں، جبکہ پہلے یہ پائپ لائنز صرف ڈیزل منتقل کرتی تھیں۔
اس منصوبے میں کئی دیگر امور کو بھی بہتر بنایا گیا، جیسے کہ پمپنگ کی صلاحیت میں اضافہ، نئے ڈیزل اور پٹرول اسٹوریج ٹینکوں کی تعمیر جن کی مجموعی گنجائش 298,000 ٹن تھی، مصنوعات کی ترسیل کے لیے گینٹریز، اور 3,000 بیرل یومیہ کی ٹرانس مکس پروسیسنگ سہولت۔